انڈیا کی ریاست گجرات میں مسلمانوں کے قتل
انڈیا کی ریاست گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام پر بہت دکھ اور افسوس ہوا ہے۔شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہو۔۔
اور اب انڈیا کی بربادی کا وقت بہت قریب ہے انشااللہ۔
مظلوم شہدا کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔۔۔۔
تمام بھائ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے اپنے مسلمان بھائیوں کے حق میں آواز بلند کریں۔
اور اب دیکھتیں ہیں کے طالبان مجاھدین اس پر اپنا کیا ردعمل دکھاتے ہیں۔
ہم فیڈریشن اور پاکستان و ترکی
اور دنیا کی دیگر مسلم فیڈریشنز سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنا سفارتی دباؤ فیڈریشن آف انڈیا پر اور خاص طور پر ریاست گجرات کی حکومت کو خبردار کریں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت اور ظلم سے باز رکھنے کے لیے دباؤ ڈالیں۔۔
ظالم کو ہاتھ کی طاقت روکیں
اگر طاقت اور اختیار نہیں رکھتے تو اپنی زبان اور قلم سے جہاد کریں یعنی سوشل میڈیا کا سہارا لیں۔اگر یہ بھی نہیں کرسکتے تو کم از کم دل میں برا جانیں۔
اے اللہ ہمارے مسلمان ماؤں بہنوں اور بھائیوں کی حفاظت فرما اور اپنے فرشتوں کے ذریعے ان کی غیبی مدد فرما
آمین ثم آمین
For Divas
Watch “villge amlimoti depalpur okara” on YouTube
تمام سُوریا ونشی راجپوت راجا سُوریا دیو کی اولاد ہیں۔
سن 1843 میں انگریزوں نے تالپور خاندان کی حکومت کا خاتمہ کر کہ موجودہ سندھ اور موجودہ بلوچستان پہ قبضہ کر لیا۔
سِندھی عوام سے ٹیکس کی وصولی کے لیے انگریز سرکار نے 1843 میں محمد علی نامی سردار کو پابند کر دیا۔
کچھ عرصہ بعد محمد علی نے انگریزوں کے کہنے پر سندھیوں سے بہت ہی زیادہ ٹیکس لینا شروع کر دیا جِس سے غریب عوام بہت پریشان ہوئی۔
اُس وقت سندھ کا ہر علاقہ انگریزوں کے قبضے میں تھا سوائے ریاست تھر پارکر اور ریاست خیر پُور کے۔
ریاست تھرپار کا دار الحکومت عُمر کوٹ شہر تھا جِس کے حکمران رانا رتن سنگھ سوڈھا تھے۔
رانا رتن سنگھ سے غریب عوام کی پریشانی نہ دیکھی گئی۔ اُنہوں نے 1843 میں ہی سندھ میں موجود انگریز سپاہیوں کی چوکیوں پر حملے شروع کر دیئے۔
انگریز سرکار رانا رتن سنگھ کی سرکُوبی کے لیئے آئے دن سندھ میں فوجی ٹکڑیاں بھیجتی گئی لیکن رانا رتن سنگھ تھر پارکر کے صحرائی علاقے کا فائدہ اُٹھا کر انگریزوں کو لگا تار شکست دیتے رہے۔
ریاست تھر پارکر کے مشرق میں موجود ریاست جیسلمیر کے راجپوت حکمران راول گج سنگھ بھٹی نے رانا رتن سنگھ کو سپاہی مہیا کر کہ اُن کی طاقت میں اضافہ کر دیا۔
سن 1847 میں رانا رتن سنگھ نے انگریزوں کے وفادار Tax Collecter محمد علی کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جِس کی خبر سُن کر انگریز سرکار کے کان کھڑے ہوگئے۔
سندھ میں انگریزوں کی طرف سے لگائے جانے والے قانون عملاً ختم ہوگئے اور سندھ لگ بھگ پوری طرح سے برطانوی سامراج سے آزاد ہوگیا۔
اب انگریزوں نے زیادہ شدت سے سندھ پر حملے شُروع کردیئے لیکن اِس کے باوجود رانا رتن سنگھ نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور مزید 3 سال تک انگریزوں کو اُن کے مقصد میں کامیاب نہ ہونے دیا۔
سن 1850 میں 7 سال کی بغاوت کے بعد آخر کار انگریزوں نے رانا رتن سنگھ کو پکڑ لیا۔ لیکن Queen Victoria نے سندھ کے انگریز گورنر Robert Keith کو حکم دیا کہ وہ رانا رتن سنگھ کو معاف کر دے اگر رانا رتن سنگھ دوبارہ انگریزوں کے راستے میں رکاوٹ نہ بننے کا وعدہ کرے۔
رانا رتن سنگھ نے معافی نامہ ٹُھکرا دیا اور انگریز سرکار کو صاف صاف الفاظ میں بتا دیا کہ جب تک اُن کے جسم میں جان ہے وہ اپنی عوام کے حق کے لیئے لڑتے رہیں گے۔
تنگ آکر سن 1850 میں انگریز زنجیروں میں جکڑے ہوئے رانا رتن سنگھ کو پھانسی کا پھندہ لگانے کے لیئے ریاست تھر پارکر کے شاہی قلعے عُمر کوٹ کے پاس لے آئے۔ اُس جگہ لوگوں کا ہجوم کھڑا تھا۔
رانا رتن سنگھ سے آخری خواہش پُوچھی گئی۔ رانا جی نے کہا میرے ہاتھ کھول دو۔
رانا رتن سنگھ کے ہاتھ کھول دیئے گئے۔ رانا جی نے مُسکراتے ہوئے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیا اور جلاد کو اشارہ کیا کہ وہ اپنا کام کرے۔
جِس کے بعد فوراً رانا رتن سنگھ جی کو پھانسی دے دی گئی۔
اِس طرح اپنی مِٹی کے سچے سپوت اور ایک سچے راجپوت رانا رتن سنگھ سوڈا اپنی رعایا کے حق کے لیئے لڑتے ہوئے قُربان ہوگئے۔
رانا رتن سنگھ کی بہادری اور وفاداری کو آج بھی سِندھی گیتوں میں بیان کیا جاتا ہے۔
دِل سے سلام ہے ایسے وفادار اور سچے سپوت رانا رتن سنگھ سوڈھا جی کو ۔ 🙏
سوڈھا راجپوت پرمار / پنوار راجپوتوں کی شاخ ہیں۔
پرمار راجپوت سُوریا ونشی راجپوتوں کی شاخ ہیں۔
تمام سُوریا ونشی راجپوت راجا سُوریا دیو کی اولاد ہیں۔
Randu

Randu rajput panwar قلعہ پھولرا قلعہ موج گڑھ قلعہ مروٹ اور باقی دوسرے قلعہ پنوار راجپوتوں کے تھے اور یہاں پر راٹھور خاندان قابض تھے جن کو سہو چوہانوں کی پشت پناہی حاصل تھی۔ جنہیں تاریخ مسخ کر کے عباسیوں کا قلعہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔قلعہ پھولڑا پر مہاراجہ ملن سی پنوار […]
Randu
https://rajputcarblog.files.wordpress.com/2022/01/screenshot_20220119-1537327287878642938502882.png

Randu
Randu rajput panwar
قلعہ پھولرا قلعہ موج گڑھ قلعہ مروٹ اور باقی دوسرے قلعہ پنوار راجپوتوں کے تھے اور یہاں پر راٹھور خاندان قابض تھے جن کو سہو چوہانوں کی پشت پناہی حاصل تھی۔ جنہیں تاریخ مسخ کر کے عباسیوں کا قلعہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔قلعہ پھولڑا پر مہاراجہ ملن سی پنوار حکمران تھا اور دلی کے حکمران جو سہو چوہان تھے نے راجہ ملن سی کو خراج/ٹیکس دینے کے لیے زور ڈالا تو راجہ ملن سی نے دینے سے انکار کردیا جس کی وجہ سے دلی کے حکمران سہو چوہان نے حملہ کا حکم دیا اور قلعہ پھولڑا پر پیش قدمی کی ۔ کبت سویا ملن سی
چھوڑیا تھارا دیش ماروتھل رے نت دی لڑاٸی
اب کیا لیتے ہو پاچھے ہارے رے نہ کر دکھیاٸ
جتھے وسن پنوار رے اوہ دھار لچھاٸ
مرن مارن ہمارا کام رے پھولڑا چھوڑ نہ جاٸ
تساں چھوڑ قنوج رے تلوار اسںاں تے چاٸ
بھل گیا رام پرمار راجہ رے پرتھی نے سنجوگتا چاٸی
چخہ جلن گیا ریاں رانیاں رے رسم قدیم آٸ
ابتک رہے خراجگزار مارے رے اج شاہی کتھوں پاٸی
اتنی کہہ ملن پنوار رے چاٸی داھڈیاں کی جاٸی
سر خم نہیں کرنا ملن رے باہویں جاں وجودوں جاٸی
راجہ ملن سی اور اس کی فوج نے سہو چوہانوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کافی مزاحمت کی۔پنوار راجپوت دلیری سے لڑتے رہے اور کٹتے رہے آخر راجہ ملن سی کو شکست ہوٸ اور سہو چوہان کے بادشاہ نے ملن سی کی گردن اتار دی اور قلعہ پر قبضہ کرلیا۔اس جنگ کے دوران راجہ ملن سی کے ہاں اک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام رانوت سی رکھا گیا اور راندو لقب دیا گیا کیونکہ یہ راجہ جنگ کے دوران پیدا ہوا تھا۔جس نے اپنے باپ کا بدلہ لیا اور سہو چوہانوں سے قلعہ چھین لیا۔
جب راجہ ملن سی کے ہاں راجہ رانوت سی المعروف راندو
پیدا ہوا تو پنوار خاندان کے جدی میراثی/ میر عالم جس کا نام عنایت علی تھا دوڑتا ہو عین میدان جنگ میں آیا جہاں راجہ ملن سی لڑاٸ میں مصروف تھا کو خوشخبری سناٸی کہ رانی رانوتی کے ہاں راجکمار تولد ہوا ہے تو راجہ بے حد خوش ہوا کیونکہ راجہ ملن سی کی بیٹیاں ہی تھی بیٹا نہ تھا ۔۔ بیٹے کی ولادت کی خبر سن کر راجہ ملن سی قلعہ کی جانب روانہ ہوا اور قلعہ میں موجود زنان خانہ میں تشریف لے گٸے۔اور اپنے فرزند دلبند کو اٹھا کر سینے سے لگایا اور بہت ہی رویا اور بے اختیار کہنے لگا جو خاندان کے جدی میر عالم / میراثی نے اپنی کبت میں بیان کی ہے
فرزند دلبندارے اج کیا خوشی کی بات
در شدیانے وجدے رہن جے ہوندو سکھپات
بڑا ہوندو سکھ دیوندو رے جنگ رہندی بات
بچا تیرے بخت دی رے اج کالی رات
میں راجہ مر چلیا رے تو پلیں کس گھات
سہرا سرے پر بندھے رے تو چڑھیں برات
اوپر ملن سی موت رے دشمن کھڑے ثبات
خوشی مراں جنگ جیونیا جے بدلہ لیں ہاتھ
مفہوم:
میرے دل کے ٹوٹے آج کیا خوشی کی بات ہے ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہونی تھی اگر امن کا زمانہ ہوتا۔اگر تو بڑا ہوتا تو میرے ساتھ جنگ میں میرا ہاتھ بٹاتا۔میری خواٸش ہے کہ تجھے سہرا پہنے ہوۓ دیکھتا پر میرے بچے تیری خوشی کی آج کالی رات ہے۔سامنے دشمن کھڑا ہے اور موت سر پر ہے۔میں تو خوشی خوشی مرجاٶ گا اگر تو میرا بدلہ لے گا۔۔۔
راندو پنوار خاندان کے جدی میر عالم عناٸت علی نے اپنی کبت میں یوں بیان کیا ہے۔ کبت میر عناٸت علی
اسلام علیکم
ذکر اولاد چوہدری راؤ پنوار بن راجہ رانوت سی پنوار المعروف راجہ راندو پنوار
چوہدری راؤ راجہ راندو کگ چھٹے فرزند تھے۔ان کی اولاد چوہدرانہ راندو کہلواتی ہے۔پنجاب کی تقسیم سے قبل لہندے پنجاب کے علاقہ ریاست کی جانب آباد تھے۔چڑھدے پنجاب کے علاقہ فیروز کی تحصیل بنگلہ فاضلکہ پنڈ جھوٹیاں والی میں آباد تھے۔اب تک صرف جھوٹیاں والی پنڈ ہی کے چوہدرانے دریافت ہو سکے ہیں۔اگلے وسندے ابھی تک دریافت نہیں ہوئے۔اور میری ذاتی رائے یہ کہ یہ راندو سب چڑھدے پنجاب کی جانب چلے گئے تھے۔چوہدرانے راندؤوں کی دو مین شاخیں ہیں جودھیکے اور امراء کے
موضع 133-ای۔بی کرتارو میں آباد ہیں جو کہ امراء خاں کی نسل سے ہیں۔امراء خاں کی دو شادیاں تھیں۔پہلی بیوی سے ڈھولا اور بگھیلا ہوئے۔ڈھولا کی نسل ڈھولا کے کہلاتے ہیں اور مشہور اور ان کے نام سے کھوہ مشہور ہے۔بابا ڈھولا کا کھوہ مشہور ہے۔امراء خاں کی تمام اکثریت کرتارو 133 میں ہی آباد ہیں۔ان میں سے کچھ گھر پنجکوسی بہاولنگر اور گھر بہاولنگر کے مضافاتی علاقہ دریا ستلج کی منڑ پر آباد ہے۔کچھ گھر راولپنڈی جا کر آباد ہوگئے ہیں۔
میاں عبدالحق راندو بن حاجی جودھے خاں کا کافی رقبہ اسی موضع میں تھا۔اور مشہور حویلی بھی اس موضع میں آباد تھی جو کہ اب غیر آباد اور کھنڈر ہوچکی اے۔میں نے مضتصر ڈاکومینٹری بھی بنائ تھی میری آفیشل آئ ڈی پر موجود ہے۔
56 ایس۔پی چک نذد ملکہ ہانس ضلع پاکپتن شریف میں بھی چوہدرانے راندو آباد ہیں۔ان کی مشہور شخصیات میاں اختر راندو میاں زبیر راندو اور احسن رحمان راندو و دیگر ہیں۔ہمارے گروپ ممبر عزت بیگ راندو ارسلان راندو اور میاں فخر حیات راندو صاحب کا تعلق بھی اس چک سے ہے۔
3 ایس پی متے والہ نذد حویلی لکھا تحصیل دیپالپور ضلع اوکاڑہ میں بھی آباد ہیں۔سیف اللہ بھائ اور علی معظم خاں کا تعلق بھی اس گاؤں سے ہے۔
جودھ پور اور سورا سنگھ میں بھی آباد ہیں۔اشرف راندو اور ذاکر حسین راندو کا تعلق بھی اس گاؤں سے ہے۔
شجرہ کے مطابق یہ راندو یعنی یہ لڑی مکمل ہو چکی ہے۔
بکھو اور امراء سگے بھائ تھے جو کہ نواب خاں کے بیٹے تھے۔
بکھو کا بیٹا حاجی جودھے خاں تھا اور امراء کا ذکر اوپر کرچکا ہو۔
لیکن نواب کے بھائ وہاب کی اولاد ابھی تک گمنام ہے۔اور تلاش حاری ہے۔میری ذاتی رائے ہے کہ جھوٹیاں والی گاؤں سے دو کلومیٹر کی مسافت پر سمے والی گاؤں آباد ہے اور وہاں سکھ راندو آباد ہیں جوکہ نئے سکھ ہیں۔یوسکتا ہے پنجاب کی تقسیم کے وقت وہ وہیں رہے گئے ہو۔ناظرین کا میری اس رائے سے متفق ہونا لازم نہیں ہے۔وہاب کا بیٹا سلطان تھا سلطان خاں کا بیٹا لونے خاں تھا اس سے آگے شجرہ نہیں ملا۔اب تحقیق جاری ہے۔
ذیشان سرور خاں راندو

